"نظم"

 ہم وہ نسل ہیں 

جن کے بچپن کو 

ریاستی جبر نے

سیاسی جبر کی لہر 🌊 میں ڈبویا

خوف کی لکیر میں 

خوشیوں کی اہٹ میں 

ہمارے پیاروں کے لہو سے بھگویا 

ہمارے کانوں میں گولیوں کی تڑ تڑ اہٹ 

آج بھی ویسی اکثر گونجتی ہے 

جیسے کسی جنگ میں 

فوج اپنے دشمنوں کو رولتی ہے 

ہمارے زمانے میں کرفیو کے آسیب ٹہرے 

اور 

سنسان سڑکوں پر فکر والوں کو موت دی گئی 

قات لوں کو باہر جانے کے پروانے ملے 

جیسے کسی قابل کو اسکالر شپ پر 

یونیورسٹی میں جیسے داخلے ملے 

مخبری کی آڑھ میں ناجانے کتنے میرے 

غیر مقامی سبز و مچھلی فروش مرے

ہمارے گھروں میں بندوق کی زور پر 

بندوق والوں نے بندوقیں نکالیں 

اور ہمارے ہی لوگ عقوبت خانوں سے نکل کر 

پھر خونخوار ہوئے ،کہ طاقت کے نشے نے 

شہر کے ہر گھر میں خوف کو جنم دیا 

انسان کیا ہے انسانیت کیا ہے سب کچھ یہ 

پھر یوں لسانیت کی نظر ہوا 

ہمارے خوابوں کی تعبیروں کو کسی منصف نے 

بڑی جلا کر آگ اندھیروں کی نظر کیا 

ہماری نسل وہ نسل ہے  کہ 

جس کی آنکھوں کو زرد آلود کیا 

اب کون مرتا ہے کون جیتا پڑوس میں ہمارے 

یوں اس نے ہمیں خود سے بے خبر کیا 

اب کون لکھے یہاں  زندہ لاشوں کا نوحہ 

محسن اچھا ہوا کہ تو نے تو کچھ گریہ کیا 


محسن منشو

Comments

Popular posts from this blog

"دیوانے کی چاہت"

بلاک کردیجئے